تلخی مزاج سے آپ کے ختم ہوتی نہیں کبھی
انداز محبّت کے بدل کر بھی تو آئیے جناب کبھی
ہو نہیں سکتی گفتگو در و دیوار سے سو وقت مانگ لیتے ہے آپ سے
گزارا تو یہاں بھی ہے نا ممکن کچھ تو سوچا کیجئے کبھی
عالم یہ ہے اب جو آجائے گر تبسّم لبوں پر وجہ پوچھتے ہے لوگ
بلا وجہ یونہی لگا لیا کرتے تھے جو قہقہہ کبھی
رہ کر درمیاں ہجوم میں لوگوں کے ہوتے ہے اب ہم تنہا
گزرے لمحات جو یاد آجاتے اس پر تنہا رقص کیا کرتے تھے کبھی
سوچا نہ تھا ایسا وقت بھی آئےگا شعیبہ برپا ہوئی ہو قیامت جیسے
گزارتے ہے زندگی اسطرح کہہ کر لوگ مثالیں دیا کرتے تھے ہماری کبھی